Posts

Showing posts from 2021

تعلیمی نظام

( اپنی بات )         کئی بار بگڑنے کے بعد، حالات پھر سے سنبھل رہے ہیں، مطلب لاک ڈاؤن اب ختم ہو نے کے قریب ہے، گرچہ تیسری لہر کا اندیشہ برقرار ہے، خدا کرے اندیشہ غلط ثابت ہو۔         اب سب سے بڑی بات جو ہے، وہ یہ کہ بچوں کا تعلیمی نظام رفتہ رفتہ بحال ہو رہا ہےاور بچے اقامتی، غیراقامتی مدارس و اسکول کا رخ کررہے ہیں۔         چونکہ حالات کو معمول پر آنے میں ابھی وقت لگے گا، اس لیے صبر اور شکر کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے تعلیمی فرایض کو انجام دیجئے، ان شاءاللہ بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

رکاوٹ اور مخالفت

( اپنی بات )         رکاوٹ اور مخالفت، ان کے بیچوں بیچ راستہ بناکر منزل مقصود تک پہنچنا ہی ذندگی کا اصل کارنامہ ہے، اس لیے کہ رکاوٹ اور مخالفت کے بغیر کسی کامیابی کا تصور مشکل ہے۔         جو لوگ آسودہ اور پرسکون ذندگی گذارتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان کی ذندگی میں کہیں سے کوئی رکاوٹ یا کسی کی مخالفت نہیں، مگر ان کا معیار ذرا الگ ہوتا ہے۔         اس لیے ذندگی کے کسی موڑ پر بھی رکاوٹ اور مخالفت مت گبھرایۓ، ورنہ ایک بڑا انسان بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

افغانستان اور طالبان

( اپنی بات )         افغانستان میں طالبان کے آتے ہی، وہاں مقیم لوگوں کے  نقل مکانی کی خبریں برابر آرہی ہیں۔ صحیح صورت حال تو وہاں کے مقامی باشندے ہی بتائیں گے،          چونکہ طالبان مسلمان ہیں اور ان کا وضع قطع دنیا کے باقی حکمرانوں سے کچھ الگ ہے اور پھر یہ بھی کہ وہ اسلامی قوانین کو اپنا دستور بنائیں گے مزید یہ بھی تو ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا میں مظلومیت کی شکار ہے۔         تو ہو سکتا ہے میڈیا ایسی خبریں پھیلا کر دنیا کو طالبان سے دہشت زدہ کر رہی ہو!      حافظ محمد عارف       تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

نفع اور نقصان

( اپنی بات )         نفع اور نقصان، ان کے لغوی معنی جو بھی ہوں، مگر یہ تو پتہ ہے کہ ہماری ذندگی انہیں دو لفظوں کے اردگرد ہے، گرچہ " نفع " لفظ " ہمیں " نقصان " کی بنسبت زیادہ عزیز ہے۔         اگر دیکھا جائے تو ہر کام میں نفع بھی ہے اور نقصان بھی۔ مگر بار بار نقصان اٹھانے کے باوجود بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کام یا پیشہ کو  ترک نہیں کرتے، وجہ یہ منقول ہے۔۔۔۔کہ گرچہ کسی کام سے آپ کا نفع نہیں ہوتا، مگر جب آپ کو اس بات کا یقین ہو کہ نہیں۔۔۔۔ہمارے کام سے یا ہماری کسی معمولی کوشش سے دوسروں کو نفع ہوتا ہے یا ہو گا، تو پھر اسے جاری رکھیے۔         اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ قوم کے غریب بچوں کی تعلیم وتربیت پر اپنے اپنے علاقے میں خاص توجہ دیجیے، حالانکہ لوگ اس پر توجہ دیتے بھی ہیں، پھر بھی بچوں میں اس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

جشن آزادی اور گاؤں

( اپنی بات )                   آزادی کا جشن         واقعی ذندگی میں کچھ کرنے کا جذبہ تو در اصل گاؤں میں رہ رہے نوجوانوں کے دلوں میں ہوتا ہے۔ آج پندرہ اگست یعنی وطن عزیز ہندوستان کی 75ویں یوم آزادی ہے اور صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے سے بارش ہو رہی ہے وہ بھی موسلادھار، مگر نوجوان اور بچوں میں جشن آزادی کا جو امنگ اور حوصلہ ہے یقینا وہ قابل قدر ہے۔۔         کیا بتائیں! شہر میں رہ رہے لوگ اگر اپنے گاؤں کے بارے میں ذرا بھی سوچیں تو ان شاءاللہ بہت سے مسائل بآسانی حل ہو جائیں گے۔         لیکن گاؤں کے نوجوانوں میں اپنے سماج کے لیے بہت کچھ کرنے کا جذبہ ہے اور الحمدللہ وہ کر بھی رہے ہیں۔         جہاں تک ہو اپنے گاؤں میں کچھ کر رہے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

یوم آزادی

( اپنی بات )         کم از کم، دل میں ہی صحیح، ارادہ تو کریں۔۔۔کہ ہم اپنے وطن عزیز " ہندوستان " کو غربت، جہالت، بدعنوانی، نفرت اور ہر طرح کی گندگی سے آزاد کرائیں گے اور ہر حال میں اس ملک کے امن وامان کو قائم رکھیں گے اس لیے کہ یہ ملک ہمارے اسلاف کے خوابوں کی تعبیر ہے اور دین اسلام کی نشرواشاعت کا سب سے بڑا مرکز بھی۔         کل پندرہ اگست یعنی وطن عزیز " ہندوستان " کی 75ویں یوم آزادی کے موقع پر جگہ جگہ ترنگا لہرانے کا عزم کریں اور جہاں بھی موقع ملے اس دیش کی گنگا جمنی تہذیب کے قصے ضرور سنیں اور سنائیں، کیونکہ ہمارا ملک کسی ایک کا نہیں بلکہ سب کا ہےاور انشاءاللہ تا قیامت رہے گا۔         بہت چھوٹے پیمانے پر ہی صحیح، جہاں کہیں بھی پرچم کشائی کا ارادہ ہو یا کسی طرح کے قومی پروگرام کے انعقاد کا، تو سوشل میڈیا پر اطلاع کی زحمت کریں تاکہ دوسروں کے لیے ترغیب کا باعث ہو،         ابھی وقت ہے تیاری ہو سکتی ہے۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم       ...

جمعہ کا دن اور ہماری قوم کے بچے

( اپنی بات )         ایسا نہیں ہے کہ ہرچیز قابو سے باہر ہے، تنہا ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے یا ہر کام کے لیے ایک تنظیم بنانے کی ضرورت ہے، بلکہ یوں بھی، اگر آپ ایک بیدار شہری یا کسی گاؤں کے ذمہ دار باشندہ ہیں، تو آپ کا ضمیر ہر وقت آپ کو کسی اچھائی کے لیے ابھار تا رہے گا۔         جمعہ کا دن چونکہ " سیدالایام " ہے، لوگ بڑے اہتمام سے نماز ادا کرنے جاتے ہیں ، مگر دیکھیۓ! بچے تو بچے ہیں، شرارت کریں گے ہی، مگر شور اور شرارت اس قدر نہ ہوکہ مسجد میں یکسوئی سے بیٹھنا اور نماز ادا کرنا دشوار ہو جائے۔ اگر اپنی قوم کے بچوں سے ہمدردی کے ناطے تربیت کی معمولی کوشش بھی کی جاۓ تو تو بچے، اپنی شرارتوں کے باوجود بھی ایک دائرے میں رہیں گے۔         اس لیئے کہ بچوں کو اگر اس کی ذہنی سطح کے مطابق کچھ سمجھا یا جاۓ تو بڑی آسانی سے کسی بات کو مان لیتے ہیں، مگر ہم بھی تو دیکھیں! کیا اس سلسلے میں کبھی کوئی بات ہمارے ذہن میں آئی۔۔۔۔۔         حافظ محمد عارف         تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پ...

جمعہ اور مسجد

( اپنی بات )         چنانچہ اسی وجہ سے ذرا عجیب لگا کہ جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر جامع مسجد کی صفائی نمازیوں کے لیے جیسی ہونی چاہیۓ ویسی نہیں تھی: یہ تب دیکھنے کو ملا، جب ہم گذشتہ جمعہ " نماز جمعہ " کے لیے گاؤ ں کی ایک مسجد گۓ۔۔۔۔۔۔۔         حالانکہ آج کل یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ مسجد کی بالائی منزل میں پنکھے نہ ہوں، جب کہ بجلی کی سہولت وہاں موجود ہو۔         مجھے تھوڑا افسوس اس لیے ہوا کہ وہ کوئی معمولی گاؤں نہیں ہے: ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور  الحمدللہ آج بھی ہے۔ اس بستی میں ایک سے ایک مہذب اور اعلی تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ وہاں دولت مندوں کی کوئی کمی نہیں ہے، پھر بھی پتہ نہیں کیا مصلحت ہے!  جو وہاں کے نظم ونسق کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوا۔         حافظ محمد عارف          تعلیمی وسماجی خادم         کنکر باغ، پٹنہ، بہار، انڈیا

ہندوستان کی آذادی

( اپنی بات )         اب وہ دن بہت قریب ہے، جب ہم اپنے ملک " ہندوستان " کی 75ویں " یوم آزادی " کا زور دار جشن منائیں گے۔         یہ حقیقت ہے کہ ۔۔۔آزادی کی نعمت ہمیں صدیوں کی قربانی میں لاکھوں جانیں گنوانے کے بعد ملی: بلاشبہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہر مذہب، ہر ذات اور ہر قبیلے کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۔۔مگر یہ بھی تو دیکھے!  کیسے کیسے علمائے کرام، ایک سے ایک اللہ کے ولی اور صلحاء وقت کی، کتنی جماعتوں کو جنگ آزادی میں شریک ہونے کے پاداش میں،  کیسی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ظلم و ستم کے کیسے پہاڑ توڑے گئے!         اس وقت ملک تو غلام تھا ہی، ہمارا دین اسلام بھی خطرے میں تھا، قربان جائیے اپنے اسلاف کی اس مظبوط حکمت عملی پر: جو انہوں نے تب اپنایا، کہ برادران وطن کو ساتھ لے کر، یا ان کے ساتھ چلے، ان کا یقین تھا کہ اگر ملک آزاد ہوگیا تو ہمارا دین بھی محفوظ رہے گا ورنہ لڑائی کبھی ختم نہیں ہو گی۔         بلاشبہ آج ہم آزاد ہیں اور ہمارا یقین ہے، کہ ملک کے داخلی معاملات جو بھی ہوں، جیسے بھی ہوں ہر حا...